Alfia alima

Add To collaction

کوئلہ بھئی نہ راکھ

کوئلہ بھئی نہ راکھ
رات تاریک ہے ، میرے نصیب کی طرح۔۔۔ آسمان پر اکا دکا ستارے ٹمٹمارہے ہیں۔ ان کا میرے آنسوئوں سے کیا مقابلہ؟ میری آنکھوں میں تو ان گنت ستارے جھملارہے ہیں، جھلملاتے ہی رہتے ہیں۔ کتنے دن ہو گئے میری آنکھوں نے مسکرانا چھوڑ دیا ہے۔۔؟ ایسا معلوم ہوتا ہے ہنسی سے میری شناسائی ہی نہیں۔ 

آج صبح سے میرا دل ہے کہ ڈوبا جارہا ہے۔ یوں رہ رہ کر تو میرا دل کبھی نہ دھڑکا تھا۔۔۔ مٹی کے اس ننھے منے چراغ میں ایسی کیا بات تھی کہ اس کے ٹوٹتے ہی میرا اپنا دل بھی جیسے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ میں نے کتنے جتن سے، کتنے برسوں سے اس چراغ کو سنبھال سنبھال کررکھا تھا۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا اس چراغ سے میری اپنی زندگی کا گہر ا ناطہ ہے، وہ ٹوٹے گا تو میں بھی ٹوٹ جاؤں گی اور آج۔۔۔؟ آج توجیسے میرا سبھی کچھ ٹوٹ گیا۔ سبھی کچھ لٹ گیا۔ لیکن میں بھی کیسی پاگل ہوں۔۔۔ آفتاب۔۔ ۔جو یہ کہہ رہی ہوں کہ آج میرا سب کچھ لٹ گیا۔ میرا تو اسی دن سب کچھ لٹ گیا تھا جس دن تم مجھے چھوڑ گئے تھے۔۔۔ امیدوں، آرزوئوں، اور بھروسوں کے سارے چراغ تو اسی دن بجھ گئے تھے، یہ تومیں ہی تھی جو خزاں ہو کربھی بہاربہار کرتی رہی۔ ۔۔ کتنی پاگل ، کیسی نادان (محبت کرنے والے سچ مچ پاگل ہی تو ہوتے ہیں!) میں تم سے شکایت نہیں کررہی ہوں آفتاب۔۔۔ شکایت اور گلے تو اپنوں سے کیے جاتے ہیں اور تم نے یہ موقع ہی کب دیا کہ تمہیں اپنا کہوں یا سمجھوں۔۔۔ سوائے چند لمحوں کے وہ لمحے جو میری زندگی کا حاصل بن گئے ہیں! کاش میں نے یوں ٹوٹ کر کسی کو چاہا نہ ہوتا۔ لیکن کیا محبت سوچ سمجھ کر کی جاتی ہے آفتاب۔۔۔؟ اب سوچتی ہوں تو یہ سراسر پاگل پن ہی نظر آتا ہے۔ میں نے دل بھی کس سے لگانے کی کوشش کی۔۔۔؟ تم سے! تم جو سچ مچ آفتاب ہی کی طرح بلند اوردور تھے۔ لیکن آفتاب میں سچ کہتی ہوں تم نے مجھے یوں حوصلہ نہ دلایا ہوتا تو شاید میں کبھی تمہاری طرف دیکھ بھی نہ پاتی۔ میں نے تو تمہیں سے روشنی حاصل کی تھی (اور تمہیں نے مجھے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔۔ ۔ کیسا دکھ ہے یہ!)۔ 

کتنے سارے سال گذر گئے ہیں کہ میں نے کبھی تمھارے بارے میں سوچا تک نہیں۔۔۔ اور جو دیکھو توزندگی میں تمہارے سوا اور دوسری کوئی بات ہی نہیں۔۔۔ جیسے اپنے آپ سے، خود کو بچاتی چھپاتی پھرتی ہوں۔ آئینے میں خود کو دیکھتی تک نہیں کہ اپنی صورت دیکھوں گی توتم یاد آجاؤ گے۔ اس صورت کوتم نے کتنا پیار کیا تھا۔ کتنا پیار دیا تھا۔ کتنا غرور بخشا تھا۔ ان دنوں آئینے کے سامنے جاتی تو گالوں پر گلال سا بکھرجاتا تھا۔ اپنا آپا سنبھلتا نہیں تھا۔ آنکھو ںکی جوت دیوالی کے چراغوں کی طرح جگمگاتی تھی۔ مجھے میرا ماتھا چاند معلوم ہوتا تھا اور ہونٹوں پر ایسی کلیوں کاگمان ہوتا تھا جو اب کھلیں کہ اب کھلیں۔ ان دنوں کوئی مجھ سے میرانام پوچھتا تو مجھے جھجک سی آتی تھی۔ میں کیسے کہوں میرانام شمع ہے۔ شمع توجلتی رہتی ہے، او ر میں تو مسکراہٹوں سے عبارت ہوں۔ بھرپور بہاروں اور دلکش ماحول سے میرا وجود مہکا مہکا ہوا ہے۔ لیکن میں یہ بھولتی تھی کہ شمع کاکام بہرحال جلنا ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں آفتاب کہ اگر میرا نام شمع نہ ہوتا تو کیا واقعی میری زندگی یوں نہ ہوتی؟ لیکن تمہارا نام بھی تو آفتاب ہے۔ سورج بھی توسدا جلتاہی رہتا ہے۔ پھرتمہارے حصے میں دنیا زمانے کی خوشیاں کیسے ہوئیں اور میں کیوں غموں سے سجائی گئی۔۔۔؟ شاید یہ میرے اپنے سوچنے کاغلط انداز ہی ہو۔ ہم عورتیں وہمی ہوا کرتی ہیں نا؟ ہاں یہ میرا وہم ہی تو تھا کہ میںایک معمولی سے مٹی کے چراغ کو یوں دل سمجھ کر سنبھال سنبھال کررکھتی رہی، اورآج اسکے ٹوٹ جانے سے یوں اداس ہوں جیسے ساری خوشیوں ہی سے میراناطہ ٹوٹ گیا ہے۔ شاید یہ بات ہو آفتاب کہ اس دن تم نے ہنسی ہی ہنسی میں بہت گہری بات کہہ دی تھی۔ 

’’شمع اسے سنبھال کررکھنا، جس دن یہ بجھا سمجھو اپنی محبت بھی بجھ گئی‘‘۔ 

وہ دیوالی کی رات تھی۔۔۔ تمہیں تو یاد بھی نہ ہوگا۔۔۔ (اور میری تو زندگی ہی محض یاد ہے) گھر کے بچے پڑوسیوں کی دیکھادیکھی مٹی کے چھوٹے چھوٹے دیئے کہیں سے لے آئے تھے اورچاندنی کی منڈیروں پر قطار در قطار بہت سارے دئیے جلا کر رکھ دئیے تھے۔ ہم دونوں چاندنی پر آئے تو سب سے کونے والا دیا بجھاپڑا تھا۔ 

’’ہائے غریب کا کوئی پرسان حال نہیں!‘‘ میں نے لرز کرکہا اور اسے ساتھ والے دئیے سے جلانے کو جھکی ہی تھی کہ تم نے ہنس کر کہا۔ 

’’آج اس دئیے سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہیں‘‘۔ میں نے بوکھلا کر تمہیں دیکھا تو تم اسی جگمگاتی ہنسی کے ساتھ بولے تھے۔۔۔ ’’ہاں جسے تم چھو لو!‘‘ 

میں نے تمہاری بات کاٹ کر پوچھا۔۔۔ ’’اورجسے تم چھو لو۔۔۔؟‘‘ 

دیا میرے ہاتھ میں کانپ رہا تھا۔۔۔ جھل مل۔۔۔جھل مل۔۔۔جھل مل۔۔۔مجھے نہیں معلوم لیکن یقینا میرے چہرے پر اسی دئیے کی لو جاگی ہوگی، یقینا اس کے عکس نے میرے چہرے کو وہ جلا بخشی ہوگی کہ تم میری تمنا کر سکو، اسی لیے تم نے کہا تھا۔ 

’’شمع۔۔۔ میں ساری زندگی تمہاری تمنا کرتا رہوں گا!‘‘ 

میراہاتھ کانپا۔ یقینا دیاگر جاتا اگر تم میرا ہاتھ نہ تھام لیتے۔ (وہ ہاتھ جو پھر تم نے کبھی نہ تھاما) اور تم نے جذبات سے بھری اور بھرائی آواز سے کہا۔ 

’’شمع ! اس مٹی کے چراغ کو میں اپنی محبت کاامین بنالوں۔۔۔؟؟‘‘ 

میں وہموں کی ماری۔۔۔ عورت پن کی ساری کمزوریوں سمیت تمہاری طرف تکنے لگی۔۔۔ نہ جانے اب تم کیا کہو۔۔۔ اور تم نے دھیرے سے کہا تھا۔ 

’’شمع اسے سنبھال کر رکھنا، جس دن یہ بجھا سمجھو اپنی محبت بھی بجھ گئی‘‘۔میرا دل دھڑدھڑ کرنے لگا۔ محبت کا یہ کون سا انداز تھا کہ ایک چراغ کوتمام ترذمہ داریاں سونپ دیں! لیکن میں نے کہا نا میں وہموں کی ماری تھی۔ تمہارے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے لیے جیسے آسمانی صحیفہ ہو گئے مجھے سہما ہوا دیکھ کر تم ذرا مسکرائے تھے اور کہا تھا۔ 

’’اتنی ڈری ہوئی کیوں ہوشمع۔۔۔؟‘‘ 

میں اک دم بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔۔۔ ’’تم نے مجھے کیسی زنجیر میں جکڑدیاہے آفتاب۔۔۔ چراغ توچراغ ہی ہوتاہے کبھی ہوا کے ایک جھونکے سے بھی بجھ سکتاہے، اب توہر لمحہ دل رہ رہ کردھڑکاکرے گا کہ اللہ نہ کرے ۔ اللہ نہ کرے۔۔۔ جو یہ بجھے۔۔۔ اورجو کبھی ہواکا کوئی سرکش اورحاسد جھونکا، میرے آنچل سے نظر بچا کر اسے بجھاہی دے تومیں کہاں جی سکوں گی؟‘‘ 

تم کتنی اعتماد سے بھری ہنسی ہنسے تھے۔۔۔ ’’تو تم اتنی سیریس ہو گئیں شمع۔۔۔! کیامٹی کایہ حقیر سادیا میری محبت پربھاری ہو سکتا ہے؟‘‘ 

’’بات مٹی اورکانچ کی نہیں آفتاب۔۔۔ بات تواعتقاد اوررواجوںکی ہوتی ہے۔ کانچ کی چوڑیوں میں کیا دھراہوتا ہے؟ لیکن کسی کے نام کے ساتھ جب ایک نئی بیاہتا کوپہنائی جاتی ہیں تواس کی زندگی کا مول ہوجاتی ہیں۔۔۔ اور پھر وہ ساری زندگی اس کے اپنے انگ کا ایک حصہ ہوکر رہتی ہیں۔ تم نے تو یونہی ایک بات کہہ دی۔ لیکن میں تو مٹ کر رہ گئی آفتاب!‘‘ 

پھر وہ رات کبھی نہ آئی جب ہم ساتھ ساتھ چاندنی پرجاتے۔ میں چراغ جلاتی۔ تم میری تمنا کرتے اور میں تمہاری وفائوں پر بھروسہ کرتی۔۔۔ بس زندگی جیسے سمٹ کر آنچل کی اوٹ میں آگئی۔ میں نے اپنے کمرے کے ایک محفوظ طاقچے میں وہ چراغ اٹھاکر رکھ دیا ۔ اور زندگی اس جتن میں گذرنے لگی کہ محبت کاوہ شعلہ کبھی بجھنے نہ پائے۔ میرا بھولا پن دیکھو، مارے وہم کے میں ایک ساتھ دو دو بتیاں روئی کی بنا کر اس میں ڈال دیتی کہ ایسا نہ ہو کہ ہواکمزور پاکراسے بجھا ہی دے۔۔۔ ہر روز میں اس میں تیل ڈالتی۔ میں تو اپنا خون بھی اس میں ڈال دیتی اگر مجھے یقین ہوجاتا کہ اس طرح محبت کے چراغ دل کے خون سے امر ہو جاتے ہیں۔ 

سب میں اس چراغ کاچرچا ہوگیا۔۔۔ میری سہیلیاں مجھ پرہنستیں۔۔۔ ’’ارے دیکھو یہ زرتشتوں کی طرح دن رات چراغ جلائے رہتی ہے!‘‘ دو ایک نے ٹوہ لینے کی کوشش کی۔ لیکن جس طرح منہ بند کلی کی خوشبو اسی کے تن میں چھپی ہوتی ہے، ایسے ہی اپنی محبت کاراز میں نے بھی اپنے ہی تن من میں رکھا ۔۔ زمانہ بہت حاسد ہے، کون جانے کس کا دل کب پلٹ جائے، اور بعض ہوائیں اتنی سرکش اور منہ زور ہوتی ہیں۔۔۔ اور میری محبت کاچراغ تو اتنا ننھا سا ہے۔۔۔ 

منزل سامنے ہو تو راستے کی کٹھنائیاں ہیچ ہو جاتی ہیں۔ میری منزل تو میرے سامنے تھی، مجھے کس بات کاڈر تھا۔۔۔ کانٹوں سے میں کبھی نہ ڈری۔۔۔ پاؤں کے چھالوں نے مجھے ہراساں نہیں کیا، قدم قدم۔۔۔ لمحہ لمحہ۔۔۔بڑھتے ہوئے حوصلوں کو زمانے کے ظلم بھی نہ پیس سکے۔۔۔ حالانکہ میری زندگی ہی کیاتھی۔۔۔ غریب سی لڑکی جس نے ماں کا سکھ دیکھا نہ باپ کی محبت۔۔۔ خالہ کے رحم و کرم کے سہارے جس نے جینا سیکھا۔ دو وقت کی روٹی اور تن بھر کپڑا جہاں زندگی کی معراج تھی۔ اور وقت گزارنے کے لیے جہاں ڈھیروں کام تھے۔۔۔گھر بھر کے میلے کپڑوں کے انبار۔ باورچی خانے میں جھوٹے برتنوں کے ڈھیر۔ جھاڑنے کے لیے بڑے بڑے آنگن۔ صفائی کے لیے چھوٹے بڑے کئی کمرے۔ اورخدمت بجا لانے کے لیے چھوٹے بڑے گھر بھر کرکئی کئی آیا۔۔۔ لیکن پیار کی اک نگاہ۔۔۔ محبت کا ایک ان کہا بول۔۔۔ مٹی کا ایک چھوٹا سا دیا۔۔۔یہ سب تیز جھلستی ہوئی دھوپ کو کیسے خنک چھائوں سے بدل دیتے ہیں۔۔۔؟؟ 

اس دن دوپہر میں سب کو کھلا پلاکر، ہرکام سے نبٹ کر جب میں اپنے بستر پر لیٹی تو پتہ نہیں کیاہوا گھر بھر کے بچے آکرمیرے سر ہوگئے۔ 

’’بجیا۔۔۔پلیز کہانی سنائیے!‘‘ 

’’ہائے اللہ! کہانی۔۔۔؟ اوروہ بھی دن میں۔۔۔ نہیں نہیں، ایسے تو مسافر راہ بھٹک جاتے ہیں۔۔۔‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔ 

’’نہیں باجی ۔۔۔ آج بڑے چچا آگئے ہیں، وہ ہمیں سرشام ہی بستروں میں گھسا دیتے ہیں کہ بچوں کو جلدی سوجاناچاہیے، تو آج ہمیں آپ دن ہی میں کوئی کہانی سنادیجئے‘‘۔ 

سب کاموں سے نبٹ کر، یہ بھی تو میرا آخری کام ہوتا تھا کہ رات میں سب بچوں کو کہانیاں کہہ کرسلائوں۔۔۔ دن میں کہانیاں مجھ سے کبھی نہ کہی گئیں۔ میں نے سناتھا دن میں کہانیاں کہو تومسافرراستے بھول جاتے ہیں۔ راہ بھٹک جاتے ہیں۔۔۔ میں وہموں کی ماری۔ میرا دل یہ سوچ کر ٹوٹا کرتا، اللہ جانے کون کس ارادے سے کس راہ جانا چاہے اور راستہ بھول بیٹھے۔۔۔ میں کیوں کسی کی منزل کھوٹی کروں؟ لیکن اس دوپہرمیں بچوں نے مجھے دم نہ لینے دیا۔ میری ایک نہ چلنے دی۔ 

’’دیکھئے آپی اگر آپ نے کہانی نہ سنائی توہم آفتاب بھیاکوکہہ دیں گے‘‘۔ تم گھرکے سب سے بڑے تھے، سب تمہارا نام لے کر ایک دوسرے کوڈرایا کرتے تھے۔ 

’’آفتاب بھیا!‘‘ میں تمہار ا نام دل ہی دل میں گنگنا کربولی۔ میرے خدا یہ کس کا نام میری زبان پرہے۔ اورمیں جیسے سب کچھ بھول کرکہانی سنانے لگی۔ کسی شہزادے شہزادی کی نہیں، اسی رہتی بستی دنیا کی۔۔۔ میری تمہاری۔۔۔ لیکن آفتاب! میں نے دیکھ لیا کہنے والے غلط نہیں کہا کرتے ، دن میں کہانیاں سنانے سے مسافر سچ مچ راستہ بھول جاتے ہیں۔ اپنی منزل پاتے پاتے بھٹک جاتے ہیں۔ میں نے دن میں کہانی سنانے کی جو غلطی کی۔ اس کا بھگتان آج تک بھگت رہی ہوں۔ سوچتی ہوں یہ کہانی میں نے شروع ہی کیوں کی تھی۔۔۔؟ 

اور پھریہ ہوا کہ دم بدم اس چراغ کی لو نیچی ہوتی گئی۔ میں پھر بھی اسے جلانے اورجلانے کی اپنی سی کوشش کئے گئی لیکن دل کا لہو بھی کام نہ آیا۔۔۔! 

آج دل کو تھوڑی بہت تسکین بس بیتے دنوں کو یاد کرنے سے مل رہی ہے۔ شاید آج کے بعد میں کبھی ان دنوں کو یاد بھی نہ کرسکوں! یہ کیسی عجیب بات تھی آفتاب کہ زندگی میں تم کبھی کھلے عام اپنی محبت کا اعتراف کیا نہ کونے کھدروں میں سرگوشیاں ہی کیں۔۔۔ نگاہیں! صرف تمہاری وہ بولتی ہوئی، مسکراتی ہوئی، عہدو پیماں کرتی ہوئی، ساری دشواریوں کو پیس ڈالنے کے بلندبانگ دعوے کرتی ہوئی نگاہیں ہی تو تھیں جنہوں نے مجھے تمہاری محبت کا یقین دلایا۔۔۔ مجھے آج بھی تمہارے ان جذبات پر ناز ہے کہ تم نے کبھی سطحی پن کا مظاہرہ نہیں کیا۔۔۔ سمندر کی وسیع ذات کی طرح تہہ ہی تہہ میں محبت کی کارفرمائیاں لہریںلیتی تھیں۔ اوپری سطح خاموش پرسکون ! کوئی کیسے سمجھ سکتاتھا کہ تم ایک غریب سی بدنصیب سی لڑکی سے اتنا بھرپور پیارکرتے ہو۔ یہ تو صرف میں تھی جو تمہاری محبت کی رازدار تھی۔ چند لمحے میری زندگی کاحاصل ہیں، کیسے گہرا پیارچھلک پڑتاتھا کبھی کبھی تمہاری چھوٹی چھوٹی باتوں سے! 

اندھیری رات میں ایک بار میں سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ، تم اتر رہے تھے۔ میں چاپ سن کر ہی سمجھ گئی یہ تم ہو۔ میں نے سوچا اللہ نہ کرے تم کہیں گر نہ جاؤ۔ اسی لیے میں نے ذرا جھجک کر کہاتھا۔ 

’’سنبھل کر اترئیے۔ اندھیرا بہت گہرا ہے‘‘۔ 

تم نے جگمگاتی آواز میں جواب دیا تھا۔۔۔ تمہارے چہرے کاچاند جو ساتھ ہے!‘‘ 

ایک تیزدھوپ والی دوپہری میں تم باہر سے آئے تو میرا دل رو اٹھا۔ 

’’ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھو لیجئے۔ کیسی سخت دھوپ سے آپ ہوکر آئے ہیں!‘‘ 

’’دھوپ؟‘‘ تم نے مسکرا کرکہا تھا۔۔۔ ’’میںجدھر جاتاہوں تمہاری ان لانبی لانبی زلفوں کا سایہ مجھ پر چلتا جاتاہے!‘‘ 

ایک چاندنی رات۔۔۔ چاند کے بھرپور حسن کے مقابل تم نے میراحقیر وجود کھڑاکیا تھا اور اپنی جواں سانسوں اور مضبوط ہاتھوں کے ساتھ میرے قریب تر ہوکر مجھے چھو کرکہاتھا۔ 

’’چاند میں اتنا نورکہاں ہے۔۔۔؟؟‘‘ 

میرے وہموں کے ساتھ ساتھ زندگی میں قدم قدم پرکیسے بھرپور بھروسے تھے۔۔۔ آج بھی توچہرے کا وہی چاند ہے۔ زلفوں کی وہی عطر بیزاور ٹھنڈی گھٹائیں ہیں۔ آنکھوں کے ، انتظار میں بسے ہوئے ڈوبے ہوئے دئیے ہیں، لیکن ایک تم نہیں ہو اور تم کیا جانوصرف تمہارے نہ ہونے سے اس زندگی کا کیا رنگ ہے۔۔۔؟؟؟ 

میں سوچتی ہوں آفتاب! لکڑیاں کتنی خوش نصیب ہوتی ہیں کہ دھواں دھواں ہو کر ، جل جل کر راکھ ہو سکتی ہیں، ہوجاتی ہیں۔ میں پاپن تو دھواں بنی نہ راکھ جلی۔۔۔ لمحے لمحے کی سنگ دل واردات میرے دل سے پوچھو اور یہ دیکھو میں بھی کیسی سخت جان تھی جو زندہ رہی، زندہ ہوں! 

وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتی۔۔۔ تم بے حد شادماں، بشاش اوربہت گہرے عزم سے میرے پاس آئے اوربولے۔ 

’’شمع۔۔۔ زندگی کتنی خوبصورت ہے۔۔۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ایک اور خوبصورت چیز ہے۔۔۔ پیسہ!‘‘ 

میں سر سے پاؤں تک لرز گئی اور بری طرح چونک کر تمہیں دیکھنے لگی۔ تم اک دم شفاف سی، بے داغ ہنسی ہنس پڑے۔ ’’گھبرا گئیں۔۔۔؟‘‘ میں صرف یہ کہہ رہا تھا شمع، اب زندگی اس مقام پر آگئی ہے کہ میں چاہوں تو خوشی سے تمہیں اپنالوں۔ مجھے بھلا کون روکے گا۔۔۔؟ لیکن میں یہ چاہتاہوں کہ ہم نے جو زندگی میں اب تک صرف دکھ اٹھائے ہیں، غریبی ہی دیکھی ہے، تواب اس راستے کو چھوڑ کر ایک نیا راستہ اپنائیں۔ جہاں خوشی ہو، محبت ہو اورزندگی کاہر عیش بھی ہو۔ 

میں بے حد سہمے ہوئے دل کے ساتھ سنتی رہی۔۔۔ شمع پہلے میں ذرا اپنی لائف بنالوں۔۔۔ میرا مطلب ہے کچھ پیسہ جمع کرلو، کارخرید لوں، پھر ٹھاٹ سے تمہیں بیاہ کر لے جاؤں ۔ تمہیں بھی تو زندگی کاکچھ حسن ملے‘‘۔ 

تمہاری محبت کے بدلے میں میں نے اپنی زبان شاید رہن رکھ دی تھی، کبھی تمہارے سامنے ہونٹ نہ ہلا پائی۔ لیکن جیسے میرا رواں رواں چیخ اٹھا۔۔۔ ’’مجھے پیسہ نہیں چاہیے آفتاب، مجھے دولت کی ہوس نہیں ہے۔ مجھے صرف تمہاری محبت چاہیے۔ مجھے اپنے پیارے ہاتھوں کے ہار پہنا دو، اپنے گرم گرم ہونٹوں کا ٹیکہ میرے ماتھے پرسجادو۔ میرے سہاگ اورمحبت کی بس اتنی ہی مانگ ہے۔۔۔‘‘لیکن میں نے کہانا کہ میں نے تمہارے آگے صرف اپنی آنکھیں جھکانا ہی سیکھا تھا۔ 

اور تم چلے گئے۔ 

یوں کہنے اور سننے میںکتنی معمولی سی بات لگتی ہے کہ ایک شخص کوجانا تھا اور وہ چلا گیا۔۔۔ لیکن یہ میں نے انہیں دنوں جانا کہ جگمگاتا چاند تاریک کیونکر ہوجاتا ہے۔ پھول اپنا حسن کیسے کھو دیتے ہی۔ بہاریں خزائوں سے کیسے بدل جاتی ہیں۔۔۔ اور دھیرے دھیرے ، ہنسنے مسکرانے والے ہونٹ ، اپنی مسکراہٹیں آنسوئوں کو کیسے تج دیتے ہیں۔۔۔ اور تم سے یہ بتادوں آفتاب کہ تم نے میری آنکھوں کے لیے جو ایک بہت پیاری اور انوکھی سی تشبیہ دی تھی کہ میری آنکھیں دیکھوتو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سچے ہیرے، جگر مگر کرتے ہیرے کوٹ کراللہ میاں نے یہ آنکھیں بنائی ہیں، تو وہی آنکھیں اپنی جگمگاہٹ کھو کر جیسے دو بجھے ہوئے چراغ بن کررہ گئیں۔ 

جہاں حوصلہ ہو وہاں ارادے بھی ساتھ دیتے ہیں۔ تمہارے بے پناہ حوصلوں نے تمہیں کامیابیوں سے ہمکنار کردیا۔ آج یہاں، کل وہاں۔تمہارا بزنس پھیلتا گیا۔۔۔ تم امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔۔ ۔خو بصورت کوٹھی، فون، فرج، نوکرچاکر اور گاڑیاں تو یوں بدلی جانے لگیں جیسے کوئی کپڑے بدلتا ہے۔۔۔میں بھی سب کے ساتھ نئی کوٹھی میں اٹھ آئی تھی۔ ایسی زندگی جس کا تصور انسان خوابوں میں ہی کر سکتا ہے۔ اب سبھی کو اور میر ا مقدر تھی۔۔۔ (لیکن تم کہا ں تھے۔۔۔؟) دولت آئی تو زندگیوں میں مغربیت دخیل ہو نے لگی۔۔۔ لیکن میں جس مقام پر تھی وہیں رہی۔۔۔ سورج مکھی کے معصوم اور نادان پھول کی طرح جو سدا سورج کی طرف تکتا رہتا ہے۔ 

ایک رات سب لوگ کسی پارٹی میں گئے ہوئے تھے۔ فون کی گھنٹی اچانک بجنے لگی۔ میں نے ہی فون اٹھایا۔۔۔ تم تھے۔ دہلی سے بات کررہے تھے۔۔۔ اتنی دور سے!! میرا دل لرز اٹھا۔ 

’’ہیلو۔۔۔ میں آفتاب بول رہا ہوں، ادھر کون ہے۔۔۔؟‘‘ 

میں ڈوبتے دل سے بولی۔۔۔’’میں ۔۔۔میں شمع ہوں۔۔۔‘‘ 

’’کیا کررہی ہو۔۔۔؟‘‘ 

’’جل رہی ہوں۔۔۔‘‘ 

ادھر سے ایک بھرپور ہنسی۔ ’’افوہ! تم تو ڈائیلاگ بول رہی ہو!‘‘ 

نہ جانے ایک ساتھ کتنے سارے آنسو میری آنکھوں میں امڈ پڑے۔ 

میں نے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔ ۔ بنتے بگڑتے جملوں کو میرے آنسوئوں نے بھگو بھگو دیا۔۔۔’’آفتاب! میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ تم آتے ہو، پھر چلے جاتے ہو، پھر آتے ہو پھر چلے جاتے ہو۔۔۔ مجھ سے بات تک کرنے کا وقت تمہارے پاس نہیں ہوتا۔ یہ چہرہ آج بھی چاند ہے۔ آنکھیں آج بھی ہیروں کی طرح دمکتی ہیں۔ زلفوں میں آج بھی ساون کی گھٹائیں جھومتی ہیں۔ لیکن تم کہاں ہو آفتاب۔۔۔‘‘ 

ادھر سے فون کٹ گیا۔ 

تیسرے دن پلین سے تم آئے۔ شوفر گاڑی لے کر ایروڈرم گیا تھا۔ تم نوابوں کی سی شان اور تمکنت کے ساتھ اترے۔ کچن کی ایک کھڑکی کاریڈور میں کھلتی تھی۔ تم ادھر ادھر دیکھتے چلے آرہے تھے۔ جیسے کسی کو ڈھونڈ ھ رہے ہو۔ شاید تمہاری آنکھوں کو میری تلاش ہو۔ میں نے دکھے دل سے سوچا۔ لیکن تم دپ دپ کرتے اوپر چلے گئے۔ شام کو میں پودوں میں پانی دے رہی تھی کہ تم باغ میں نکل آئے۔ 

’’ارے شمع تم۔۔۔ مالی کہاں ہے، یہ تم کیا کرتی رہتی ہو ہمیشہ۔ کام۔۔۔کام۔۔۔کام۔۔۔ اتنے سارے نوکر جو ہیں۔۔۔؟ 

میں نے پہلی بارتمہاری آنکھوں میں بے خوفی سے جھانکا۔۔۔ ’’آفتاب سبھی پھول تو ایسے نہیں ہوتے جو مالی کے ہاتھوں کھل سکیں۔۔۔‘‘ 

اک دم تم چونکے۔۔۔’’تم آج کل بہت ڈائیلاگ بولتی ہو۔۔۔ ایں، اور بھئی اس دن ٹرنک کال پر تم یہ کیا نادانی کرنے لگیں؟ کوئی ایسا رویا کرتا ہے؟ میں نے تو گھبرا کر ریسیور ہی رکھ دیا‘‘۔ 

میں کچھ نہ بولی۔ پودوں میں پانی ڈالتی رہی۔ لڑکیاں بہت احمق ہوتی ہیں۔ زندگی بھر محبت کے پودوں میں امیدوں کا پانی ڈالتی رہتی ہیں۔۔۔ اور میں بھی تو ایک لڑکی ہی تھی۔۔۔ سب لڑکیوں جیسی۔۔۔ بلکہ ان سے کچھ زیادہ ہی نادان۔ 

اور مجھے اس دن پر حیرت ہے جب میں اتنی بے باک ہو گئی تھی کہ تمہارے مقابلے پر آکھڑی ہوئی تھی۔۔۔ یہ تمہارا احسان تھا یا ظلم ۔ پتہ نہیں، بہر حال تم نے مجھے نت نئے کپڑوں اور زیوروں سے لاد دیا تھا۔ سبھی سے تمہارا یہ مطالبہ تھا کہ گوندنی کے پیڑ کی طرح زیوروں سے لدی رہیں۔ گھرکے لڑکے کاریں اڑائے پھرتے، لڑکیاں نئے نئے فیشن کے کپڑوں اور زیوروں سے سجی بنی کوٹھی پر اپنی سہیلیوں اور دوستوں کے ساتھ ہنگامہ مچائے رکھتیں۔۔۔ اور تم جو ان دنوں نعوذ باللہ سب کے پالن ہار بنے ہوئے تھے۔ یہ سب دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے کہ سب لائف کو کس قدر انجوائے کر رہے ہیں۔ اور یہ دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے کہ میں اتنی خوشیوں کے باوجود کس طرح۔۔۔ بے طرح اداس رہتی ہوں۔ پہننے اوڑھنے سے مجھے رغبت نہیں۔ گھومنے پھرنے کا شوق نہیں۔ آنے جانے میں دل نہیں لگتا، محفلوں سے بھاگتی ہوں۔۔۔ میں کیا کرتی آفتاب۔۔۔ میرا تو دل ہی جیسے مردہ ہوگیا تھا۔۔۔ تم سچ مچ ہی آفتاب بن کر رہ گئے تھے جسے ہر لمحہ دیکھ تو سکتے ہیں، ہاتھ بڑھا کر چھو نہیں سکتے۔ اپنا نہیں سکتے۔ 

اس دن تم کلکتہ سے آئے ہوئے تھے۔ تم نے اپنے دوستوں کو ایک پارٹی دے ڈالی۔ انتظام تو مجھے ہی کرناتھا سو میں نے کر دیا لیکن ان ہنگاموں سے مجھے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔۔۔؟ تم نے مجھے جتا دیا تھا دیکھو ’’شمع! خدا کے لیے آج ذرا اچھے کپڑے پہننا اور خوبصورت۔۔۔ خیروہ تو تم نظرآؤ گی ہی!‘‘ 

میں نے بے دلی سے وہ جوڑا پہن لیا، جس سے میری دیرینہ یادیں وابستہ تھیں۔ جن دنوں تم غریب تھے لیکن میرے تھے۔ اندھیری راتوں میں جن دنوں تم میرے چہرے کی روشنی میں اپنے راستوں کے لیے چراغ فراہم کر لیا کرتے تھے۔۔۔ سیاہ شلوار، سیاہ قمیص اور سیاہ دوپٹہ، جن پر ستارے ٹنکے ہوئے تھے۔ تم کسی کام سے اندر آئے تو، تھے تو بڑی لپک جھپک میں ۔۔۔ لیکن مجھے دیکھ کر ٹھٹک سے گئے۔ 

’’شمع۔۔۔ یہ دوپٹہ۔۔۔‘‘ 

میں نے تمہاری بات کاٹ دی۔۔۔’’اسے میرا مقدر سمجھ لو۔۔۔ سیاہ تاریک۔۔۔ اور ان ستاروں کو آنسو۔۔۔ شاید یہ نشانی تمہیں کچھ سوچنے پر اکسائے۔ 

’’تم کیسی باتیں کررہی ہو شمع؟‘‘ 

میں پھٹ پڑی۔۔۔’’آفتاب مجھے مت آزمائو۔۔۔ خدا کے لیے مجھے مت آزمائو۔۔۔ میں گھٹ رہی ہوں، مررہی ہوں، تمہیں کچھ احساس نہیں ہوتا۔۔۔ آنسوئوں نے میرا گلا رندھا دیا۔۔۔ آج میں تم سے تمہیں کو مانگتی ہوں۔ بولو آفتاب! جب اللہ نے تمہیں دنیا جہان کی نعمتوں سے نواز دیاہے توتم مجھے کیوں ٹال رہے ہو۔۔۔‘‘ 

’’پاگل نہ بنو شمع۔۔۔ میں تمہیں ٹال نہیں رہا ہوں بھائی، قصہ دراصل یہ ہے کہ ابھی میرے سامنے اتنے پروگرام ہیں کہ میں خود گڑبڑا گیا ہوں۔ دیکھو پندرہ دن بعد مجھے لندن جانا ہے، وہاں سے لوٹوں تو شاید کئی دنوں کے لیے دہلی جانا پڑجائے۔ اگلے چھ مہینوں میں مجھے پیرس۔۔۔ہانگ کانگ۔۔۔‘‘ 

میں نے اپنے کانوں میں انگلیاںٹھونس لیں۔ میں چیخ اٹھی۔ 

’’آفتاب ! سونے کے مت بن جاؤ۔ خداکے لیے گوشت پوست کے انسان بنے رہو کہ میں تمہیں پا بھی سکوں، چھو بھی سکوں اور چھوئوں تو یہ احساس بھی کر سکوں کہ میں نے محبت اور پیار سے بھرپور ایک گداز دل کو، جسم کو چھوا ہے، یہ احساس نہ ہو کہ میں نے ایک سونے کے مجسمے کو محبت دی ہے‘‘۔ 

تم ہکا بکا رہ گئے۔ شاید تمہیں توقع نہ تھی کہ میں، جو سدا ایک گونگی کے کردار میں تمہارے ڈرامے میں پارٹ کرتی رہی، یوں بول بھی سکوں گی۔ میں اچانک دیوانوں کی طرح اٹھی اور اونچے کارنس پرسے وہ ننھا منا چراغ اٹھا لائی جو میری امیدوں کی طرح رہ رہ کر ٹمٹما رہا تھا۔ 

’’اسے پھونک مار کر بجھا دو آفتاب۔۔۔ اب میں زندگی سے ہار گئی ہوں۔ مجھ میں وہ حوصلہ نہیں کہ میں اسے دل کا خون دے کر بھی زندہ رکھ سکوں۔۔۔‘‘ 

تم نے چراغ کو بے معنی نگاہوں سے دیکھا۔۔۔ اسے بجھایا نہیں۔ (لیکن جلایا بھی نہیں) 

اس رات کی پارٹی کی ایک بات مجھے یاد رہ گئی ہے۔ تم نے اپنے دوستوں کاہم سب بہنوں سے تعارف کرایا تھا اور تمہاری ہی ٹکر کے ایک بزنس مین دوست اسلم نے ، مجھ سے ہاتھ ملاتے وقت بے حد شدید حیرت اور سچائی کے ساتھ کہا تھا۔ 

’’یارآفتاب۔۔۔ کیا بے وقوفی تھی۔۔۔ آج کے دن تک یہی سمجھتا رہا تھا کہ حوریں مرنے ے بعد ہی ملیں گی!‘‘ 

پھر چند دنوں بعد خالہ امی نے میرے سامنے ایک عجیب و غریب ’’بات ‘‘پیش کی۔ 

’’بیٹی۔۔۔ تم جانتی ہو آفتاب کتنا روشن خیال لڑکا ہے، اس نے اپنی بہنوں کو بھی بے جا پابندیوں سے دور رکھا ہے اور تمہیں بھی وہ اپنی بہنوں کی طرح ہر عیش آرام مہیا کرناچاہتا ہے۔ اسلم آفتاب کابہت گہرا بہت پیار ا دوست ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس نے تمہیں بے حد پسند کیاہے۔ وہ تم سے شادی کر نا چاہتا ہے۔ وہ کچھ ٹھہر کر بولیں۔ ہم سب اور خاص طور سے آفتاب اس رشتے سے بے حد خوش ہے‘‘۔ 

اس کے بعد تو سننے کے لیے کچھ بھی نہ رہ گیا۔ میں اس اصول کی قائل ہوں کہ محبت ایساجذبہ ہے جو زبردستی کسی سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ جب تم ہی نے مجھے ٹھکرادیا تومیں تمہارے سامنے اس گھر میں رہ کر ہی کیا کرلیتی۔۔۔ میں تو بہرحال ایک بوجھ تھی جو کسی نہ کسی کے سر لاد دیا جاتا۔ میں نے ہا، نا کچھ بھی نہ کہا۔ بس اپنا سرجھکا لیا۔ اب میں سر اٹھا کر جی بھی کیسے سکتی تھی۔۔۔؟ لیکن یہ کیسا دکھ ہے آفتاب جو جی سے جاتا ہی نہیں میں کہانیاں پڑھتی تھی جن میں ہمیشہ دو محبت کرنے والوں کے بیچ، زمانہ، سماج یا کوئی رقیب آڑے آجاتا تھا۔ محبت اسی لیے سدا مثلث سے تعبیر کی جاتی رہی ہے۔ لیکن میرے نصیب میں یہ کیسا غم لکھا تھا کہ نہ تو کوئی سماج میرے لیے دیواربنا، نہ زمانے نے اڑچن ڈالی۔ نہ کوئی رقیب ہی پیدا ہوا۔ تمہیں میرے سب کچھ تھے اور تمہی نے مجھے بھری بہارمیں لوٹ لیا۔۔۔ تمہی نے سہاگ کی بندیا میرے ماتھے پرسجائی اور تمہی نے مٹا دی۔۔۔ جیون مرن کا سارا کھیل تمہارے ہی ہاتھوں انجام کو پہنچا۔ 

جب میں بیاہ کر نئے گھر آئی تو وہ دیا اپنے ساتھ ہی اٹھا لائی۔ اسلم نے دیکھا، میں دیئے کی ایسی دیوانی ہوں تو اس نے میرے گھر کو سدا دیوالی کا روپ دے دیا۔۔۔ ننھے منے رنگین قمقمے یہاں سے وہاں تک سارے لان میں، درختوں میں، حد یہ کہ ننھے منے پودوں تک میں لگوا دئیے۔ 

’’تمہیں اجالوں سے پیار ہے اور مجھے تم سے۔۔۔‘‘ اور اس نے محبت سے سرشارہوکر بے حد عام شوہروں والی، ہزار بار کی کہی بات دہرائی۔ 

’’جان یہ توحقیر قمقمے ہیں، تم کہو تو میں آسمان کے سارے جگمگاتے ستارے توڑ کر تمہارے آنچل میں ڈال دوں۔۔۔!‘‘ 

اسلم بے چارے کویہ بات نہیں معلوم آفتاب کہ جن ستاروں کے توڑ لانے کاجتن وہ کرتارہتا ہے، وہ آج سے سالوں پہلے تم نے چن چن کر میری آنکھوں میں بسا دئیے ہیں۔ 

مجھے اسلم پرکیسا کیسا ترس آیا ہے۔۔۔ اس بے چارے نے کیا قصور کیاہے کہ اسے محبت سے محروم زندگی ملے۔۔۔ اور پھر اتنا ٹوٹ کر چاہنے والا شوہر۔۔۔ اسی لیے آج میں نے اپنے ہاتھوں سے اس مٹی کے دئیے کو زمین پر پٹخ دیا۔ میں ان یادوں کے لیے کیوں اپنا جیون برباد کروں جو مجھے خوشی کا ایک لمحہ بھی نہیں دے سکتیں۔ لیکن صبح سے اب تک۔۔۔ میں ایک لمحے کو بھی سکون نہیں پا سکی ہوں۔ رہ رہ کے دل میں کانٹے سے ٹوٹ رہے ہیں اور آنسو تو یوں ٹوٹ ٹوٹ کر گررہے ہیں جیسے ساری دنیا بہا لے جائیں گے۔ دل کی دکھن کا یہ عالم ہے جیسے چھالے تپک رہے ہوں۔ بے پناہ خوشیوں، محبت کرنے والے ساتھی اور رنگین بہاروں میں گھری ہونے کے باوجود جیسے میری روح ترس ترس کر کراہتی ہے۔۔۔ میں تنہا ہوں۔۔۔میں اکیلی ہوں۔۔۔ میں اکیلی ہوں۔۔۔ 

   1
0 Comments